حوزہ نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف ثقافت و اندیشہ اسلامی کی علمی کمیٹی کے رکن حجۃ الاسلام و المسلمین محمد ملک زادہ نے کہا: ایٹمی مذاکرات کے ساتویں دور کے شروع ہونے کے بعد بیرون ملک دشمن میڈیا اور اندرون ملک میں بعض مغربی دھارے ایٹمی مذاکرات کے شکست پزیر ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ان عناصر کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے پابندیاں ہٹانے کے لیے سنجیدگی کا فقدان ہے اور اس جھوٹے دعوے کو مختلف میڈیا میں بڑے پیمانے پر منتشر بھی کیا گیا ہے۔
مذہبی ماہر اور محقق نے مزید کہا: ایران کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آتا ہے جب اسلامی جمہوریہ نے مذاکرات کے اس دور میں پہل کی ہے اور پابندیوں کے خاتمے اور جوہری مسائل کے سلسلے میں دو عملی دستاویزات پیش کرکے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ سنجیدہ مذاکرات اور نتائج محور ہونے کی بنا پر ویانا گئے ہیں اور کبھی بھی یہ نہیں چاہتے کہ یہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: اس صورت حال میں یہ توقع رکھنا بعید از قیاس نہیں ہے کہ مغرب بالخصوص امریکہ جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامی کا ایک بڑا عنصر رہا ہے اور ایران پر پابندیوں کو برقرار رکھنے کے ساتھ اپنی مراعات اور تاوان کے حصول کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، ان مسائل کے حل ہونے میں کسی قسم کی پہل کریں گے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ ایران کے پاس کسی بھی عمل کا میدان ہو اور کسی طرح اسلامی جمہوریہ اپنے غیر استعمال شدہ ذرائع کا استعمال کرے۔ اس لیے وہ میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلا کر دنیا کو اپنے تئیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ گویا ایرانی فریق مذاکرات کو جاری نہیں رکھنا چاہتا۔
حوزہ علمیہ میں انجمنِ مطالعاتِ سیاسی کے رکن نے کہا: ایرانی مذاکراتی ٹیم قومی مفادات کی پیروی کر رہی ہے۔ ایران میں تشکیل پانے والی تیرہویں حکومت نے انتظام سنبھالتے ہی کہا تھا کہ غیرملکی سیاست میں جوہری مذکرات کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ اپنی عوام کے اقتصادی حالات کے لئے کام کرے گی اور اس مقصد کو حاصل کرنا صرف جوہری معاہدے سے ہی منسلک نہیں ہوگا۔
حوزہ علمیہ کے اس ماہر تعلیم اور محقق نے کہا: اس صورت حال میں اگر یورپی ممالک امریکہ کے دباؤ میں آکر ایران کی اصولی تجاویز کو قبول نہ کریں تو یقینا یہ مذاکرات میں تعطل کا سبب بنے گا۔ اس مسئلہ نے واضح طور پر یورپ اور امریکہ کو ایسی الجھن اور کنفیوژن میں ڈال دیا ہے جو جھوٹے پروپیگنڈوں کی زد میں بھی ڈھکی چھپی نہیں۔
انہوں نے کہا: بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق ایران اس وقت بہت اچھی پوزیشن میں ہے اور اس ملک کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا مستحکم ہونا، فیصلے کرنے اور ملکی ہتھیاروں اور علاقائی حامیوں پر انحصار کرنا ہے۔ یعنی لبنان، عراق، شام، یمن اور غزہ کی پٹی میں اس کے طاقتور ہتھیار جو ایران کے کہنے پر دشمن کی آنکھوں سے نیندیں چھین سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: امریکہ اور صیہونی حکومت نے اس مسئلے کو جانتے ہوئے بھی ابھی تک ایران کا براہ راست سامنا کرنے کی جرأت نہیں کی ہے اور نہ ہی انہیں یہ جرأت حاصل ہو گی کیونکہ بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار عبدالباری عطوان کے مطابق، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنگ کے آغاز کا مطلب یہ ہے کہ "یہ نہ صرف اسرائیل کو پتھر کے زمانے میں لوٹائے گا بلکہ اس کے وجود کو مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے ہی مٹا دے گا کیونکہ ایسی صورت میں ہزاروں میزائل ہر سمت سے اور مختلف سائز میں اس کی طرف برسیں گے"۔ یہی چیز بغداد میں سعودی انٹیلی جنس چیف کے ایران سے بات چیت کا بھی باعث بنی کیونکہ انہیں اپنے امریکی اتحادی پر اعتماد کی کمی کا سامنا ہے اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ انہیں ایسی سرنوشت کا سامنا کرنا پڑے۔
انسٹی ٹیوٹ آف ثقافت و اندیشہ اسلامی کی علمی کمیٹی کے رکن نے کہا: یورپی ممالک جس طرح ٹرمپ کے ان مذاکرات سے علیحدگی کے بعد ایک آزاد حیثیت اختیار نہیں کر سکے تھے اسی طرح وہ اب تک ان مذاکرات میں بھی امریکہ سے ہٹ کر اپنے لیے ایک آزاد تشخص کی وضاحت نہیں کر سکےہیں۔
انہوں نے کہا: دوسری طرف واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کے مقابلے میں امریکہ کی شکست امریکہ کی طرف نیم آزاد یورپی پالیسی کے اعلان کرنے کا ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس اجلاس میں امریکہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود ایران پر ہتھیاروں کی پابندی میں توسیع کے لیے ملک کی مجوزہ قرارداد کو کونسل میں ووٹ نہیں دیا گیا اور 11 ممتنع اور باطل ووٹوں (بیلجیم، ایسٹوانیا، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، نائیجریا، سینٹ ونسنٹ، جنوبی افریقہ، تیونس، برطانیہ اور ویتنام) اور صرف 2 امریکہ اور ڈومینیکن ریپبلک کے موافق ووٹوں اور روس اور چین کے 2 مخالف ووٹوں کی وجہ سے یہ قرارداد منظور نہیں کی گئی۔
حجۃ الاسلام و المسلمین ملک زادہ نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس نے بھی اس میدان میں امریکہ کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ موجودہ تناظر میں ویانا مذاکرات یورپ کے لیے اپنی پوزیشن واضح کرنے کا ایک اور موقع پیش کرتے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ موجودہ حالات کا تسلسل اور امریکہ پر انحصار یورپ یا کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں اور اب انہیں امریکی طاقت کے زوال کے عمل کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے دبدبے تلے نہیں رہنا چاہئے لہٰذا اب اب وقت آگیا ہے کہ یورپ ایک اور تاریخی فیصلہ کرے۔